بھارتی فوجیوں کی ریکارڈ خودکشیاں

دنیا بھر کی مسلح افواج میں خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے بھارت پہلا ملک بن چکاہے۔ بھارتی وزارت دفاع کے اعداد و شمار کے تحت خودکشی کے سب سے زیادہ بھارتی فوج میں رونما ہوتے ہیں جہاں ایک دہائی میں ایک ہزار سے زیادہ فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے واقعات منظرعام پر آچکے ہیں۔ بھارتی فوج میں خودکشی کے رحجان پر 2010ء میں وزارت دفاع سے متعلق پارلیمانی کمیٹی نے حکومت کو اس مسئلے کے حل کیلئے بیرونی ماہرین کی خدمات لینے کی صلاح دی تھی لیکن اس پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا۔ بھارتی فوج میں 33 ماہرین نفسیات کی تقرری کی تجویز بھی فائلوں میں پڑی ہے۔ حالت یہ ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں میں فوجیوں کیلئے چارٹرڈ پروازوں اور ریلوے سفر کے علاوہ وارنٹ دینے کی تجویز پر وزارت دفاع کی اصولی منظوری کے باوجود عمل نہیں ہوا حالانکہ ہندوستان میں فوج نے ہر یونٹ میں ایک ماہر نفسیات کی سہولت دینے کا ہدف مقرر کررکھا ہے لیکن اسے مکمل ہونے میں مزید سال درکار ہیں۔ ہر سال سو سے زیادہ فوجی کشیدگی کی وجہ سے خودکشی اور ساتھیوں کے قتل جیسے اقدامات اٹھا رہے ہیں جبکہ اس سے بچائو کی نصف درجن سے زائد تجاویز سرکاری منظوری کے انتظار میں ہیں۔ گزشتہ 12 برسوں میں 1362 فوجیوں کی خودکشی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ساتھ ہی 2000 ء سے لیکر تاحال اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں دوسرے فوجی اہلکار کی زندگیوں کا خاتمہ فوج میں نظم و ضبط کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جنگ کی تھکان (وار فٹیگ) سے فوجی اہلکاروں میں نفسیاتی تبدیاتیاں رونما ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ جلدی سے مشتعل ہو جاتے ہیں اور کچھ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ کسی جنگ زدہ علاقے میں طویل عرصہ تک تعینات رہنے اور گھر والوں سے دوری کے سبب فورسز کے اہلکار چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی پریشانی میں کم تنخواہیں، بنیادی سہولتوں کا فقدان اور بعض اوقات افسروں کی طرف سے بھی توہین آمیز سلوک بھی شامل ہے۔ پچھلے چند برسوں میں خودکشی اور آپس میں لڑائی جھگڑوں کے واقعات میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلسل، طویل اور تھکا دینے والی ناجائز جنگ سے بھارتی فوجی سخت ذہنی کوفت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ انہیں سخت ترین ڈیوٹی دینا پڑتی ہے اور لمبے عرصے تک گھر جانے کیلئے چھٹی بھی نہیں ملتی۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنے ہی ساتھیوں کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دینے کے بعد خودکشی کر لینے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔
تاہم افواج سے آنے والی منفی خبروں کے باعث ایک اور نئے عجوبے نے جنم لیا۔ وہ یہ کہ اب بھارتی نئی نسل کے لیے عسکری شعبے میں کوئی کشش باقی نہیں رہی چنانچہ خصوصاً بھارتی بری فوج میں افسروں اور جوانوں کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ حال تو یہ ہے کہ بھارتی بری فوج کے بیشتر یونٹوں میں افسروں کی تعداد دس تا بارہ ہے جبکہ معمول کے مطابق 22 تا 27 ہونی چاہیے۔ یاد رہے ایک یونٹ میں چھ سو تا آٹھ سو فوجی موجود ہوتے ہیں۔ افسروں کی کمی کے باعث بچے کچھے افسر جوانوں پر توجہ نہیں دے پاتے۔ سو افسروں اور جوانوں کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں یہ ایک بڑی خرابی ہے جو بھارتی فوج کے پیشہ وارانہ امور پر یقینا اثرانداز ہوگی۔
فوجی ہسپتالوں کے بیڈ ایسے افراد سے بھرے پڑے ہیں۔ جنہیں اس کارروائی کے بعد بچا لیا گیا گویا حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ ان واقعات کی اکثریت ان فوجی یونٹوں سے متعلق ہے جن کی تعیناتی کشمیر میں ہے یہ وہ فوجی ہیں جنہوں نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے اور ان پر یہ قدرت کی طرف سے قہر نازل ہو رہا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2001ء سے اب تک تیرہ سو سے زائد بھارتی فوجی اپنے ہاتھوں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ بی بی سی کے ایک اور انکشاف کے مطابق کشمیریوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی نسبت خودکشی کرنے والے بھارتی فوجی اہلکاروں کی تعداد زیادہ ہے اس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بھارتی حکومت جن فوجیوں کا قتل کشمیری مجاہدین پر تھوپ دیتی ہیں وہ بھی اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں ہی جہنم واصل ہوتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق بھارتی وزیر دفاع نے ان اقدامات کا ذکر بھی کیا جو اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے۔ ان میں مشاورت، قیام و طعام میں بہتری، خانگی رہائش گاہ کی فراہمی اور تعطیلات کے قوانین میں مناسب ردوبدل شامل ہیں لیکن یہ سب اقدامات لاحاصل ثابت ہوئے ہیں اور خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی فوج کے ایک سینئر افسر نے ان حالات کا ذمہ دار بھارتی عسکری قیادت کو قرار دیا ہے۔ اس افسر کے بیان کے مطابق تنظیم میں کمی اور قیادت کی ناقص کارکردگی سے فوجی خودکشی کررہے ہیں اور آپس میں ہی ایک دوسرے کو قتل کیے جارہے ہیں۔
‘ڈی ٹائمز آف انڈیا’ کے تحت بھارتی مرکزی حکومت ایک عرصے سے صوبائی حکومتوں کے سربراہوں کو مراسلے لکھ رہی ہیں کہ ان کے علاقے میں موجود فوجیوں کے خاندانوں کی خصوصی سرپرستی کی جائے اور ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔
ڈاکٹر ارونا بروتا جو بھارتی فوج میں ماہر نفسیات کی حیثیت سے کام کررہی ہیں انہیں جب خودکشی کے ان واقعات کی نفسیاتی تحقیق پر مامور کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجی اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے مطمئن نہیں ہیں جس کے باعث ذہنی تنائو انہیں آخری اقدام پر مجبور کرتا ہے۔ یہی سنڈے گارڈین نے کہا ہے کہ جب فوج میں تعیناتی کے وقت نفسیاتی آزمائشوں سے ان کو پرکھا جاتا ہے تو اس وقت کسی بھی فوجی کی جذباتی سطح کا اندازہ کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ بعد میں وہ خودکشی پر آمادہ نہ ہو۔ بھارتی فوج کے ایک ادارے ڈیفنس انسٹیٹیوٹ آف سکائیالوجی ریسرچ کے مطابق اس طرح کے واقعات پرامن علاقوں میں تعینات فوجیوں کے اندر زیادہ ہوتے ہیں جس کی متعدد وجوہات اس ادارے نے پیش بھی کی ہیں۔ مذکورہ ریسرچ سنٹر نے کم و بیش 200 فوجیوں سے ایک سوالنامے پر درج معلومات کے اندراج کے ذریعے یہ سروے منعقد کروایا اور دوسری تجویز پیش کی کہ سینئر اور جونیئر افسروں کے درمیان ہم آہنگی کی بہت کمی ہے، اسے دور کیا جائے۔
ایک اور ٹی وی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج میں 38 فیصد ذہنی مریض ہیں۔ 14.17 فیصد شراب کی بنیاد پر زندگی گزارتے ہیں اور 9.8 فیصد شدید ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ بھارتی حکومت اپنے فوجیوں کے تحفظ کیلئے جتنے چاہے اقدامات کرلیں جب تک مظلوم کشمیریوں پر ظلم کا سلسلہ تھمے گا نہیں مکافات عمل کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
بھارتی آرمی چیف کا بھی اعتراف کرتے ہوئے کہنا ہے کہ بھارتی فوج میں ہر سال خودکشی کے سو واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر واقعات کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے انہوں نے بتایا کہ ہلاکتوں کے واقعات غلطی سے فائرنگ اور دوسرے واقعات کے علاوہ ہیں۔ بھارتی جنرل کے مطابق خودکشی کی شرح مقبوضہ وادی اور اس سے ملحقہ شمال مشرقی علاقوں میں زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فوجی یہ انتہائی اقدام دبائو، خوف یا پریشانی کے باعث کرتے ہیں اور 2001ء کے بعد ہر سال 100 واقعات کے بارے میں انکشاف ہوا ہے۔
ایک بھارتی اخبار کے مطابق کشمیر میں جاری تحریک کے باعث بھارتی فوج کا مورال دن بدن گرتا جارہا ہے۔ اخبار نے سرینگر میں تعینات بھارتی فوج کے ایک ترجمان کا بیان شائع کیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسی جگہ پر کام کررہے ہیں جہاں نہ تو ہمیں اپنی زندگی کے اگلے لمحے کا پتہ ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل کی خبر ہے۔ اخبار کے مطابق بھارتی حکومت نے فوج کے اندر اسی بڑھتے ہوئے خطرناک رحجان کے پیش نظر فوج کے قوانین میں نرمی کی اور ان فوجیوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا تھا جو یا تو انتہائی حساس علاقوں میں تعینات ہیں یا پھر دشوار گزار علاقوں میں۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت ساتھ لاکھ سے زائد فوج نے کشمیریوں کا محاصرہ کررکھا ہے۔
بھارت میں فوجیوں کی ہزیمت کا یہ عالم ہے کہ اب انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے سے مدد لینا پڑتی ہے اور حیرت انگیز بات تویہ ہے کہ بظاہر طاقتور بھارتی عدالت عظمیٰ بھی افواج بھارت کو ان کا حق نہیں دلوا سکتی۔ 1973ء تک بھارتی افواج علیحدہ پے کمیشن یا تنخواہوں کے تعین کا نظام رکھتی تھی۔ اس کمیشن کے تحت فوجی افسر اور فوجیوں کی تنخواہیں خاصل معقول تھیں۔ مگر افسر شاہی یا بیورو کریسی کو پسند نہیں آیا چنانچہ 1973ء میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو فوج کے خلاف اتنا بھڑکایا کہ انہوں نے فوجی پے کمیشن نے ہی ختم کردیا۔ اسی دوران افسر شاہی چوتھا پے کمیشن تیار کر چکی تھی جو بیورو کریسی اور افواج دونوں پر لاگو ہوا جبکہ بھارتی افسر شاہی نے چال چلتے ہوئے فوجیوں کی تنخواہیں کم کر دیں۔ آخر 1996ء میں یہ افشا ہوا اور کیرالہ ہائیکورٹ میں حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا گیا تاکہ فوجیوں کی تنخواہوں میں بھی سالانہ اضافہ ہو۔ بعدازاں ہزاروں ریٹائرڈ فوجیوں نے بھی عدالت میں کیس دائر کردیئے۔ 8 مارچ 2010ء کو ریٹائرڈ فوجیوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا گیا۔ فیصلے میں حکومت کو حکم دیا گیا کہ وہ مع سالانہ سود ترقیوں کا معاوضہ افواج کے سبکدوش فوجیوں کو ادا کرے۔ اس فیصلے سے 20 ہزار فوجیوں کو فائدہ پہنچا لیکن افسر شاہی جاگی اور اس نے اس فیصلے پر اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا کہ وہ 20ہزار سے زائد فوجیوں کو معاوضہ دینے کا مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور ابھی تک یہ معاملہ عدالت میں زیرالتواء ہے۔
مذکورہ حالات و واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ایشیا میں بالادستی کا خواب دیکھنے والے بھارت کی فوج نفسیاتی و ذہنی اعتبار سے اس قدر کمزور ہو چکی ہے۔ اب ہندوستانی سرکار کو چاہیے کہ وہ علاقے کا ٹھیکیدار بننے کے بجائے، اربوں روپے اسلحہ کی بھٹی میں جھونکنے کے بجائے ان میں سے چند لاکھ روپے اپنی فوجیوں کی بہبود پر بھی خرچ کرے۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ ہندو بنیا اپنی ذہنی لحاظ سے پست فوج کے ذریعے پاکستان پر حصہ کرنے کی دھمکی دیتا ہے جو گیڈر بھبھکیوں سے زیادہ نہیں۔
تحریر:محمد شاہد محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں