شاہ زیب قتل ذاتی عناد یا دہشتگردی: ہائیکورٹ نے مقدمہ ٹرائل کیلئے سیشن عدالت بھیج دیا

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کا معاملہ ٹرائل کے لئے سیشن عدالت بھیج دیا۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزائے موت کے خلاف شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی اپیلوں کی سماعت کی۔ہائیکورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران ملزمان کے وکلا کی جانب سے صلح کی درخواست عدالت میں جمع کرائی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ دونوں فریقین کے درمیان صلح ہوچکی ہے۔اس پر سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سے انکوائری رپورٹ طلب کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ذاتی عناد پر جھگڑا ہوا جس پر شاہ زیب کو قتل کیا گیا۔آج سماعت کے دوران ملزمان کے وکلا نے سپریم کورٹ کے 2017 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی عناد کا جھگڑا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔جب کہ پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ مدعی دستبردار ہوچکا ہے جب کہ عدالت نے سوال کیا کہ یہ قتل ذاتی عناد ہے یا دہشت گردی۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ مقدمے میں صرف دہشت گردی کے پہلو کا جائزہ لینا باقی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کے اس نکتے، کہ ذاتی عناد کا جھگڑا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا کو دیکھتے ہوئے معاملہ ٹرائل کے لئے سیشن عدالت کو بھیج دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ مقدمے کی سماعت متعلقہ سیشن عدالت کرے گی اور ماتحت عدالت قتل کے محرکات کا جائزہ بھی لے گی۔
خیال رہے کہ 20 سالہ نوجوان شاہ زیب خان کو دسمبر 2012 میں ڈیفنس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوستوں نے معمولی جھگڑے کے بعد گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
جب کہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جون 2013 میں اس مقدمہ قتل کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج علی تالپور کو سزائے موت اور دیگر ملزمان بشمول گھریلو ملازم غلام مرتضٰی لاشاری اور سجاد علی تالپور کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں