جموں وکشمیر ہندوستان میں ضم نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی یہاں کے عوام کسی کے غلام ہیں فاروق عبداللہ

مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر ہندوستان میں ضم نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی یہاں کے عوام کسی کے غلام ہیں۔ ہم عزت اور آبرو کیساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جموںوکشمیر کے عوام ہی یہاں کی سرزمین کے مالک ہیں اور مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل یہاں کے عوام کی مرضی کے برعکس نہیں ہوسکتا سری نگر میں پارٹی کارکنوں کے ساتھ ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور کشمیری قوم کو اس دلدل سے نکالنے کیلئے ہندوستان اور پاکستان کو اس دیرینہ مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنا ہی ہوگا،نیشنل کانفرنس روز اول سے ہی مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کی وکالت اور اس کے حصول کیلئے جدوجہد کرتی آئی ہے اور یہ جماعت ایسے کسی بھی سیاسی حل میں اڑچن نہیں بنے گی جو یہاں کے تینوں خطوں کے عوام کو قابل قبول ہوگا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پارٹی ہیڈکوارٹر پر مختلف عوامی اور پارٹی کارکنوں کے ساتھ ملاقات کے دوران ایک نجی نیوز چینل کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیر کے حالات اسی صورت میں مکمل طور پر ٹھیک ہوسکتے ہیں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستی ہو گی اور مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل نکالا جائے گا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہم گذشتہ 70سال سے دونوں ممالک سے استدعا کرتے آرہے ہیں ہمیں اس دلدل سے باہر نکالنے کیلئے مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالیں۔لیکن الٹا جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی جمہوری اور آئینی مراعات کا شب خون مارا گیا۔ بدقسمتی سے حکومت ہند نے مہاراجہ ہری سنگھ کے مشروط الحاق جو صرف 3شرائط، کرنسی، دفاع اور رس ورسائل پر تھاسے منحرف ہوئی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون متعارف کیا، اس قانون کا اولین مقصد جموں کے ڈوگری کلچر کو بچانا تھا ، اس کے بعد یہ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کی ان تھک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ آئین ہند میں دفعہ370شامل کی گئی۔ ریاست جموں وکشمیر وہ اکلوتی ریاست ہے کہ جس نے ہندوستانی وفاق کا حصہ بننے کیلئے شرائط طے کرنے کی خاطر بات چیت کا طریقہ اختیار کیا۔ اس بات چیت میں دفعہ370اور دفعہ35Aجیسے معاملات کو طے پایا گیا۔ لیکن 1953میں شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کو غیر آئینی اور غیر جمہوری طور پر گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد 1975تک نئی دلی نے من پسند حکومتیں قائم کیں اور ریاست کی خصوصی پوزیشن کو روند ڈالا، جس سے یہاں کے لوگوں کا بھروسہ اور اعتماد کم ہوتا گیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا جب ریاست پرآشوب دور کی نذر ہوگئی۔1996میں ہم سے آزادی سے کم کچھ بھی دینے کا وعدہ کیا گیا اور Sky is the limitکا جھوٹا وعدہ کیا گیا، جب ہم نے ریاست کی اسمبلی سے اٹانومی کی قرارداد دو تہائی اکثریت سے پاس کروائی تو اس وقت کی این ڈی اے حکومت نے اسے نظرانداز کردیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کے بحران کیلئے مواتر مرکزی حکومتیں براہ راست ذمہ دار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جموں وکشمیر ہندوستان میں ضم نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی یہاں کے عوام کسی کے غلام ہیں۔ ہم عزت اور آبرو کیساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جموںوکشمیر کے عوام ہی یہاں کی سرزمین کے مالک ہیں اور مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل یہاں کے عوام کی مرضی کے برعکس نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو طول دینے سے آر پار ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو ہی سب سے زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے اور آج بھی کشمیری اس چکی میں پِس رہے ہیں، اس مسئلے کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لوگ اپنے جانیں گنواں بیٹھے، بستیوں کی بستیاں خاکستر ہوئیں، قبرستانوں کے قبرستان بھر آئے، بے نام اور گم نام قبرستان بھی وجود میں آئے، ایسا کوئی گھر نہیں جو پرآشوب دور میں متاثر نہ ہوا ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں