شجاعت بخاری قتل معاملہ:انسانی حقوق کے قومی کمیشن میں عرضی دائر

پولیس تحقیقات پر سوالات کھڑے کئے گئے
مقبوضہ کشمیرمیں مرحوم صحافی سید شجاعت بخاری کی ہلاکت کا معاملہ قومی حقوق کمیشن پہنچ گیا ہے۔ایک مقامی سماجی کارکن نے سینئر صحافی کی ہلاکت کا معاملہ انسانی حقوق کے قومی کمیشن کے پاس دائر کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس واقعے کی غیر جانبدارنہ تحقیقات ہو اور قاتلوں کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ بشری حقوق کارکن ایم ایم شجاع نے کمیشن میں عرضی دائر کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کر کے تحقیقات کی درخواست کی۔ روزنامہ رائزنگ کشمیر کے مدیر اعلیٰ اور سنیئر صحافی و تجزیہ نگار سید شجاعت بخاری کو14جون کے روز سرینگر کی پریس کالونی میں اپنے2ذاتی محافظوں سمیت نامعلوم بندوق برداروں نے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ ایم ایم شجاع نے درخواست پیش کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں اگرچہ انسانی حقوق کمیشن ہے،تاہم گرمائی تعطیلات کی وجہ سے فی الوقت ریاستی انسانی حقوق کمیشن سرگرم نہیں ہے،اور تعطیلات کے دوران اہم نوعیت کے کیسوں کو نپٹانے کیلئے کوئی بھی بینچ قائم نہیں کیا گیا۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس بنیاد پر شکایت گزار نے قومی انسانی حقوق کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سینٹر فار پیس اینڈ پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس کے چیئرمین ایم ایم شجاع نے عرضی میں مہلوک صحافی کو معروف ایڈیٹر قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ وہ سماجی کارکن بھی تھے،جبکہ ملک کے اندر اور باہر کئی امن کانفرنسوں میں بھی شرکت کی تھی۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ کچھ اہم عوامل اورمواقع ہیں،جن کی تحقیقات بے حد لازمی ہے،تاکہ”مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے”۔ عرضی میں سوالیہ انداز میں کہا گیا کہ پریس کالونی اور اس کے گرد نواح میں اس وقت سیکورٹی کے کیا انتظامات تھے،جب شجاعت بخاری کو ہلاک کیا گیا۔عرض گزار کا کہنا ہے کہ اگر یہ حقیقت ہے کہ مہلوک ایک روز قبل وزیر اعلیٰ سے ملاقی ہوئے تھے،اور انکی سیکورٹی کو بہتر بنانے کی درخواست کی تھی،تو فوری طور پر اس سلسلے میں کوئی کارگر قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا،اور مہلوک کی جان کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک اصل مجرمین کو حراست میں نہیں لیا گیا،جبکہ مبینہ طور پر ایک اس نوجوان کو گرفتار کیا گیا،جس نے جائے واقع سے پستول اٹھایا تھا۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ سی سی ٹی وی'(خفیہ کیمرہ) سے حاصل شدہ جو تصاویر منظر عام پر آگئی ہے،وہ مشتبہ ہے،کیونکہ ابھی تک پولیس نے ایسے کسی بھی پل کی نشاندہی نہیں کی،اور نہ ہی اس کیمرہ کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں یہ کیمرہ نصب ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ سی سی ٹی وی کی فوٹیج کے وقت کے بارے میں بھی تفصیلات کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ درخواست گزار نے اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے بشری حقوق کے قومی کمیشن سے اس معاملے میں مداخلت کر کے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے،جبکہ مہلوک صحافی سمیت دیگر2اہلکاروں کے کنبوں کی باز آبادکاری کی بھی درخواست کی ہے؟۔

اپنا تبصرہ بھیجیں