08اکتوبر زلزلے کا ناقابلِ فراموش منظر

آج سے 13سال قبل یعنی 08اکتوبر 2005ء صبح آٹھ بج کر 52منٹ پر قیامت صغریٰ کی شکل آزادکشمیر و پاکستان میں خوفناک زلزلہ آیا اس زلزلے سے آزادکشمیر کے اضلاع مظفرآباد، باغ، ہٹیاں، نیلم، حویلی اور پونچھ کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے ہزارہ بالخصوص بالاکوٹ کے علاقوں میں تباہی آئی 95فیصد سے زائد مکانات نجی و سرکاری عمارات زمین بوس ہوگئیںجگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ اور پہاڑوں کی سطح پھٹ گئی ندی نالوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے بند بن گئے چکار کے نزدیک لودھی آباد پورا گاؤں اپنے سینکڑوں مکینوں کے ساتھ دفن ہو گیا نالے پر بند بننے سے زلزال جھیل بن گئی کئی سالوں بعد طوفانی بارشوں سے یہ کئی کلومیٹر جھیل بند ٹوٹنے سے قریب قریب ختم ہو گئی تاہم ابھی بھی جھیل کا کچھ حصہ موجود ہے جو خوفناک زلزلے کی یاد دلاتا ہے دریائے نیلم پر سلائیڈنگ سے دریا رک گیا ڈیم کی شکل بن گئی پاکستان آرمی نے بروقت کارروائی کرکے دریا کے پانی کے بہاؤ کو بحال کیا متاثرہ علاقے کے لوگ حالت روزہ میں اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے کہ زمین زور دار جھٹکے کھانے لگی اس سانحہ میں 80ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے آزادکشمیر کے مندرجہ بالا اضلاع میں 49ہزار سے زائد افراد شہید ، 33,136زخمی 18769 بچے بچیاں یتیم ہوگئے 13ہزار خواتین بیوہ ہو ئیں ہزار بالاکوٹ، اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں شہید و زخمی ہونے والوں کی تعداد
علیحدہ ہے یہ تو سرکاری اعداد و شمار ہیں تاہم نقصان اس سے کئی زیادہ ہوا ہزاروں زخمی بعد میں ہسپتالوں اور گھروں میں دنیا سے چل بسے یوں تو مالی نقصان کے اندازے بھی لگائے گئے مگر مالی نقصان کے صحیح اعداد و شمار اکھٹے کرناناممکن لہے سب سے زیادہ جانی نقصان بالاکوٹ، مظفرآباد اور باغ میں ہوا سات ہزار مربع کلومیٹر علاقہ متاثر ہوا شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد طلباء و طالبات معصوم بچوں کی ہے جو تعلیمی اداروں کی ناقص عمارات کے گرنے کی وجہ سے ہوئی یقینا یہ سرکاری سکولوں، کالجز اور یونیورسٹی مظفرآباد کی وہ عمارات ہیں جن کی تعمیرات میں متعلقہ محکمہ اور ٹھیکیداران نے مل کر کرپشن کی ناقص تعمیر کی بددیانتی کی جس کی وجہ سے یہ عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئیں ہزاروں لوگ زخمی ہو کر ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئے زلزلے کے اس ہولناک منظر میں نیء ہوش کے ساتھ کھلی آنکھوں سے دیکھا میں اور میری بیٹی بھاگ کر کھلی آئے خوفناک منظر دیکھا ایک عجیب قسم کی گونج تھی درخت زمین ہر شے اپنی جگہ قائم نہ تھی خوفناک گونج کی وجہ سے قریب ہی گھر گرا مگر اس کے گرنے کی آواز سنائی نہیں دی پرندوں کی آوازیں بند تھیں جو عموماً میرے گھر کے قریب سنائی دیتے تھے زور دار جھٹکے شروع ہوئے تو میری بیٹی میرے گلے سے لپٹ گئی ہم نے زور سے کلمہ طیبہ پرھنا شروع کیا اور ایسے لگا کہ واقعی قیامت شروع ہوگئی ہے جونہی جھٹکے رکے ہر طرف گردوغبار تھا کچھ نظر آرہا تھا تاہم ہر طرف کہرام تھا چیخ و پکار تھی ہمارے گھر کے سامنے گرلز کالج کی بچیاں چیخ و پکار میں آہ و بکاء کر رہی تھیں مجھے اپنے بچے یاد آگئے اہلیہ بھی سکول میں تدریسی فرائض سرانجام دینے گئی تھیں بچوں کا پتہ کرنے کے لئے بھاگا مگر بھاگ نہیں سکتا تھا فوری گر جاتا ہاتھوں اور پاؤں کے بل سکول پہنچا تو اس پرائیویٹ سکول کی دو منزلہ لینٹر
والی عمارت گری پڑی تھی ملبے کے نیچے سے بچوں کے رونے اور چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں اوزار نہ ہونے کے باعث ہم بے بس تھے ایک جگہ سے سوراخ بنانے میں کامیاب ہوئے اور یہاں سے 30کے قریب بچے زندہ اور کچھ زخمی حالت میں نکلے مگر عمارت کا ایک حصہ ایسا تھا جہاں سے بچوں کو ہم نہ نکال سکے اور بچے آوازیں دیتے رہے امی ابو کو پکارتے اپنے نام بتاتے بتاتے زندگی کی بازی ہار گئے اسی سکول میں میرے بچے بھی پڑھتے تھے جو بخریت نکل آئے مگر 9بچے اور ان کی ایک معلمہ شہید ہو چکی تھیں ایک بچی کو دیکھا جو دوران زلزلہ کمرے سے بھاگی مگر دروازے پر ہی اوپر سے لینٹر کی پختہ بیم آگری بچی کے جسم کا آدھا حصہ کمرے کے اندر اور آدھا باہر اوپر بیم اس کی آنکھوں، ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا مگر ابھی تک بچی سانس لے رہی تھی ہم اسے بھی نہ بچا سکے زلزلے کا وہ خوفناک منظر ناقابلِ فراموش ہے آج بھی بچوں کی وہ چیخ و پکار یاد آتی ہے تو راتوں کو بستر سے اٹھ بیٹھتا ہوں اور نیند نہیں آئی 08اکتوبر کا زلزلہ پوری قوم کے لئے بڑی آزمائش تھی قوموں کی پہچان ایسی ہی آزمائشوں میں ہی ہوتی ہے اس سانحہ پر پوری پاکستان قوم تڑپ اٹھی جس کے پاس جو کچھ تھا متاثرین کی طرف چل پڑا ناقابلِ فراموش جذبہ ایثار و قربانی سامنے آیا پاکستانی قوم میں یہ جذبہ تین اہم آزمائشوں کے دوران سامنے آیا 1947ء میں جب وطن عزیز آزاد ہوا تو قوم ایک آزمائش میں تھی اس وقت مثالی قومی ایثار و قربانی اور ہمت اور صبر کا جذبہ سامنے آیا اسی طرح 1965ء کی جنگ جب بھارت نے وطن عزیز پر حملہ کیا لاہور پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو پوری قوم قومی جذبے سے سرشار دیوانہ وار نکلی یہ تاریخ کے اہم لمحات ہیں جن سے بہت حوصلہ ملتا ہے اور تمام قسم کی مایوسیاں ختم ہو جاتی ہیں اور یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ مشکل کی گھڑی میں ہماری قوم یقینا ناقابلِ شکست ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہمارے (باقی صفحہ6بقیہ نمبر1)
دشمن ہمارے دشمن ہمارے قومی جذبہ ایثار و قربانی کا کسی بھی صورت مقابلہ نہیں کرسکتے البتہ اس سانحہ کی یاد میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی آزمائشیں اکثر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے آتی ہیں قومیں اجتماعی طور پر بداعمالیوں کا شکار ہو جاتی ہیں تو اللہ سزا بھی دیتا ہے عبرت کے لئے اس طرح کے سانحات بھی رونما ہوتے ہیں میرے نزدیک 08اکتوبر 2005ء کا زلزلہ اللہ کی ناراضگی کی علامت ہے اس لئے کہ ہم اجتماعی طور پر ان تمام معاشرتی برائیوں کا حصہ بن چکے ہیں جن سے دور اپنا از بس ضروری ہے اور اللہ کا حکم بھی ہے جب اللہ کے حکم کی نافرمانی ہوی تو پھر ایسا ہوگا بے حیائی، جھوٹ، فراڈ، ظلم، والدین کی نافرمانی، قتل و غارت گری، بچوں سے جنسی زیادتیاں اور قتل، بددیانتی، دھوکہ دہی، فراڈ ، ملاوٹ، رشوت، سفارش ، قبیلائی، علاقائی اور سیاسی جماعتی عصبیت جیسے امراض میں مبتلا ہوکر ہمارا معاشرہ تباہی کے کنارے کھڑا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے 08اکتوبر 2005ء کے زلزلے سے کچھ سبق سیکھا ہم نے انفرادی و اجتماعی اپنی اصلاح کی؟ اپنے گناہوں پر ندامت اور اللہ سے معافی مانگی جب اس صورت حال کا میں عمیق نظروں سے جائزہ لیتا ہوں تو مایوسیوں کے اندھیروں اور خوف کے مبتلا ہوجاتا ہوں اس لئے کہ اس سانحہ کے بعد ہم بحثیت انفرادی و اجتماعی سنبھلنے کے بجائے مزید خراب اور بگڑ گئے ہیں جن معاشرتی برائیوں کا اوپ ذکر کیا ان میں مزید اضافہ ہوتا گیا اور ہم نے نہ عبرت حاصل کی نہ اصلاح کی طرف آئے بغاوت اور نافرمانی میں مزید ترقی کی ہے اس وجہ پریشانی اور خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں 08اکتوبر سے بھی زیادہ آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں لمحہ فکریہ ہے اور درد مندانہ پوری قوم سے اپیل ہے کہ سانحہ 08اکتوبر 2005سے عبرت حاصل کی جائے اپنے کردار اور طرز عمل پر نظر ثانی کی جائے رویے بدلے جائیں ہر فرد اپنی اصلاح کرے پھر اپنے گھر کے افراد کی اصلاح میں کردار ادا کرے اس طرح پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے اس طرح کی اصلاح کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے آزمائشوں سے بچنے کی دعائیں بھی مانگی جائیں اللہ تعالیٰ آنے والے دنوں میں آزمائشوں سے بچائے۔ آمین۔
پروفیسر ریاض

اپنا تبصرہ بھیجیں