پانی بمقابلہ آب حیات

ایک دن شہنشاہ اکبر نے اپنے درباریوں کے سامنے ایک سوال پیش کیا جو کہ سوال یہ تھا کہ : ’’کون سے دریا کا پانی سب سے بہترین ہے ؟
‘‘تمام درباریوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ : ’’عالی جاہ! دریائے گنگا کا پانی سب سے بہترین ہے ۔‘‘ مگر بیریل خاموش تھا ۔ شنہشاہ نے دیکھا اور اس سے دریافت کیا کہ : ’’بیربل ! تم کیوں خاموش ہو؟‘‘ بیربل نے جواب دیا کہ : مہاراج ! ’’دریائے جمنا کا پانی سب سے بہترین ہے ۔ ‘‘ شہنشاہ بڑا حیران تھا بیربل کا جواب سن کر اور اس نے کہا کہ : ’’بیربل ! تہمارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے ؟‘‘ تمہاری مقدس کتاب نے دریاگنگا کے پانی کو بہترین قرار دیا ہے خالص اور پاک اور پھر بھی تم جمنا کے پانی کو بہترین تصور کرتے ہو۔ بیربل نے کہا کہ :مہاراج ! ’’ہم کس طرح پانی اور آب حیات کا مقابلہ کر سکتے ہیں ؟‘‘ اور آپ جو دریائے گنگا میں بہتے ہوئے پانی کو دیکھتے ہیں ۔ پانی نہیں ہے آب حیات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کہا کہ : دریائے جمنا کا پانی بہترین ہے ۔‘‘ تمام درباری خاموش بیٹھے تھے اور صرف شہنشاہ ہی تھا جو بیربل کے ساتھ صحیح ہونے پر متفق تھا ۔ دربارہ ایک دن شہنشاہ نے ایکدوسرا سوال درباریوں کو پیش کیا جو کہ یہ تھا کہ : ’’وہ کونسی چیز ہے جس پر چاند اور سورج کی روشنی نہیں پڑتی ؟‘‘ کسی بھی درباری کے پاس سوال کا جواب نہ تھا ۔ شہنشاہ اکبر نے یہی سوال بیربل کے ہاں بھی پیش کیا ۔ بیربل نے تھوڑی دیر سوچا اور بعدازاں اس نے کہا کہ : ’’مہاراج ! صرف ایک چیز ہے جس پر چاند اور سورج کی روشنی نہیں پڑتی ۔‘‘ شہنشاہ تجس سے دریافت کہ :۔ ’’وہ کونسی ؟‘‘ بیربل نے کہا کہ :۔ ’’اندھیرا‘‘ ’’یہی ایک چیز ہے جس کو نہ چاند اور نہ سورج کی روشنی ملتی ہے ‘‘ ہر ایک نے بیربل کے دانا جواب کی بہت تعریف کی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں