دکھاوے میں کمال،کارکردگی میں زوال

عنبرین فیض احمد۔ کراچی
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ پاکستان کا سب سے اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کراچی درحقیقت پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ پاکستان کی 70فیصد آمدنی یہیں سے ہوتی ہے۔ پورے ملک کا 70فیصد بجٹ کراچی سے ہونے والی آمدنی اور صوبہ سندھ کا 97فیصد اسی شہر سے پورا کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہات سے لوگ اپنا رزق تلاش کرنے کے لئے اسی شہر کا رخ کرتے ہیں لیکن افسوس اس شہر کے ساتھ شروع سے ہی سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں روا رکھا گیاہے۔
کراچی بڑا شہر ہونے کے ناتے یہاں پر وارداتیں بھی بہت ہوتی ہیں لیکن اس حوالے سے ایسے کوئی خاص اقدامات بھی نہیں اٹھائے جاتے جس سے شہری سکھ چین کی نیندسو سکیں۔ کئی سال سے کراچی کے شہریوں کو مختلف قسم کے جرائم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ طویل عرصے تک اس شہر میں ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری ، لوٹ مار اور ڈکیتی کے واقعات ہوتے رہے ۔ لاقانونیت کا دور دورہ رہا۔ افسوس کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی کارکردگی صفر ہی دکھائی دیتی ہے بلکہ منفی درجے کوپہنچ چکی ہے حالانکہ حکومت، ملک کے مختلف شہروں میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے مسلسل اقدامات کرتی رہتی ہے تا کہ جرائم اوروارداتوں میں کمی آسکے۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے ایسے آلات اور ایسی تربیت یافتہ فورسز تیارکی ہیںجن کی مدد سے وہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے قابل ہوجائیں۔اس مقصد کیلئے حکومت پولیس کو جدید خطوط پر استوارکرنے کیلئے سرگرم عمل رہتی ہے تا کہ وہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں موبائل چھیننے، بھتہ خوری اور دیگر جرائم تو معمول کی بات بن کر رہ گئی ہے۔ پولیس کی ناکامی اور ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے ہی رینجرز کو کراچی کی نگرانی اور حفاظت کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ سندھ پولیس کی بات تو ایک طرف ہے مگر دیکھا جائے تو پاکستان بھر کی پولیس کی اصلاح کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ ہماری پولیس دکھاوے میں کمال اور کارکردگی میں مائل بہ زوال ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پولیس کا محکمہ نہ ہوتا تو شاید اتنی دہشت گردی نہ ہوتی۔ پولیس میں پائی جانے وا لی کالی بھیڑیں جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی میں بھی ملوث پائی گئی ہیں کیونکہ ایسی خبریں بھی ابلاغی ذرائع سے نشر ہوتی ہیں کہ فلاں واردات میں پولیس اہلکار خود ملوث تھے ہوتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد پولیس سے رابطے میں رہ کر اپنے ساتھیوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔
پولیس والوں سے دہشت گرد تو خوف زدہ دکھائی نہیں دیتے مگر عوام ان سے خوف زدہ ضرورہوتے ہیں۔ کسی بھی واردات کے بعد جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے پولیس شریفوں اور بے قصور عوام کے خلاف پرچے کاٹ دیتی ہے اور جتنے نام اس پرچے میں شامل ہوتے ہیں، ان سے وہ رشوت لے کر اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ہماری پولیس بدعنوانی ، بھتہ خوری میں اپنی مثال آپ ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ سیاست زدہ بھی نظر آتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ برسراقتدار پارٹیاں ہیں جواپنے من پسند اور سفارشی افراد کوبھرتی کرا دیتی ہیں اور انہیں اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرتی ہیں۔ اس لئے اگر دیکھا جائے تو ملک کی ترقی اور تنزلی کی لگام بھی سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے او رشایدیہی وجہ ہے کہ پولیس ملک و قوم سے زیادہ اپنے کرمفرماؤں کی وفادار دکھا ئی دیتی ہے ۔ قانون کے یہ رکھوالے ان کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں خواہ وہ قانون کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑا کردیں۔
پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ فورسز کیوں نہ تیار کر لی جائیں، حکومت اگر واقعی ان جیسے اداروں کو فعال بنانا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ سب سے پہلے سیاسی مداخلت کا خاتمہ یقینی بنائے۔ میرٹ کو سفارش پر ترجیح دے۔ ہماری پولیس کو نہ صرف جسمانی تربیت کی ضرورت ہے بلکہ اس سے زیادہ ان کو اخلاقی تربیت دینے کی ضرورت ہے تا کہ ان میں فرض سے محبت اورلگن کا جذبہ پیدا ہو۔حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پولیس والو ںکی کردار سازی پر توجہ دی جائے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک میں بھی جرائم کا گراف نیچے آجائے گا کیونکہ پولیس کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے اور عوام سے حسن سلوک سے وہ اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ، ان میںدہشت گردی شامل ہے جس نے ہماری جڑوں کو بھی کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔
ہماری بہاد ر اور نڈر افواج جس طرح ڈٹ کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں، اس سے سبق سیکھ کر ہماری پولیس کو بھی اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دینی چاہئے ۔ پولیس کو جدیدخطوط پر استوار کیا جانا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پولیس اہلکاروں کو سیاست سے بالاتر ہو کر ملک و عوام کی خدمت پر مامو ر کرے پھر وہ دن دور نہیں ہوگاجب ہمارا ملک اندرونی طور پر دہشت گردی سے پاک ہو کر مستحکم ہو جائے گا اور ترقی کی منزلوں کو چھو لے گا۔
ہمارے فوجی جوانوں کی بہادری اور جرأت کی وجہ سے دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکتی۔ وہ بڑی دلیری سے کسی بھی کڑے امتحان میں قوم کی امیدوں پر پورا اترنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لئے قوم پاک فوج کو اپنی آنکھوںپر بٹھاتی ہے۔فوج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اگر پولیس کے افسران بھی اپنے فرائض نیک نیتی سے ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام ان پر بھی اپنا پیاراور اعتبار نچھاور نہ کریں۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ ڈولفن فورس کے اہلکاروں کی ہے جو لاہور شہر میں فلیگ مارچ کر رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ان کی دہشت کی وجہ سے اور قدموں کی چاپ سن کر مجرم تھر تھر کانپ اٹھے گا ۔اگر اسی طرح کی کوئی فورس تیار ہوئی ہے تو یقینا اسے کراچی میں بھی ہونا چاہئے جہاں عوام کوان کی زیادہ ضرورت ہے ۔ اس شہر میں عوام کی راتوں کی نیندیں دہشت گردی کی وجہ سے حرام ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں ویسے تو ہر طرح کے قوانین بنے ہوئے ہیں لیکن سارا مسئلہ یہ ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا کیونکہ قانون پر عملدرآمد کرانے والی پولیس فورس خود ہی لیت و لعل سے کام لینے کی عادی ہے ۔ اس میں کئی ایک اہلکار بدعنوانی میں ملوث ہیں ۔ ایسے میں ان کے اندر یہ صلاحیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ قوانین کا نفاذ ممکن بنائیں۔ نہ ہی ان کے اندرملک و قوم کی خدمت کا شوق ، لگن ، جوش اور ولولہ پایا جاتا ہے ۔ جب ملک میں قانون کا بھرپور نفاذ ہوگا اور ان پر عملدرآمد ہو گا تبھی جا کر شہر میں امن و سکون کا بول بالا ہو سکتا ہے اورمجرموں کے دلوں میں قانون کا خوف پیدا ہو سکتا ہے ۔ پھر وہ منز ل بھی آ سکتی ہے کہ کوئی بھی مجرم اتنا گھبرائے کہ جرم کرنے سے پہلے 100مرتبہ سوچے۔ ایسی ہو گا توپرسکون اور پرامن معاشرہ تشکیل پاسکے گا۔
اگر ایسا ہو کہ ذمہ پولیس جیسے ذمہ دار ادارے کے اہلکارجرائم کی بیخ کنی میں ناکام رہیں، عوام کے ساتھ ان کا سلوک غیر معیاری ہو، شہر میں لاقانونیت کا دور دورہ ہوتب ہی ایسا ممکن ہوتا ہے کہ کوئی بھی سر پھرادن دہاڑے یا رات کو جب دل چاہے بس ایک چھری اٹھا کر موٹرسائیکل پر سوار ہو کرگھر سے نکلے اور لڑکیوں او رخواتین پر چھری سے حملے کرے ، انہیں زخمی کرے اور پولیس فورس اسے گرفتار کرنے میں ناکام رہے ۔ کوئی ان سے پوچھنے والا بھی نہ ہو کہ ابھی تک اس چھری مار کی گرفتاری میں کامیابی کیوں نہیں ہو سکی ۔ اسی طرح لاہور میں کوئی ہتھوڑا بردار نکل آئے ، لوگوں کو نشانہ بنائے اور ان کا بھی کوئی پرسان حال نہ ہو یا کوئی گروہ دکانوں کے تالے توڑ کر جو چاہے لوٹ کر لے جائے اور ان کا سراغ ہی نہ لگایا جا سکے۔ایسے میں جب مجرم سرعام دندناتے پھریں اور کوئی ا ن کو پکڑنے والا نہ ہو تو سوچئے عوام کا کیا حال ہو گا مگر یہاں پر سوال یہ ہے کہ ایسے مجرم کوپکڑا کیوں نہیں جاتا ؟ ان جرائم پیشہ افراد کو معلوم ہے کہ انہیں کوئی پکڑ نہیں سکتا اور بفرض محال اگر پکڑے بھی گئے تو ہماری پولیس والوں سے جان پہچان ہے ،وہ ہمیں فوراً رہاکر دیں گے یا ہم خود کسی اور ذریعے سے رہا ہو جائیں گے۔ اسی لئے وہ قانون کی دھجیاں اڑانے سے گریز نہیں کرتے۔
عوام کے امن وسکون کے لئے ان حساس اداروں یعنی پولیس میں بھرتی خالص میرٹ پر ہونی چاہئے اور ان کی تقرری اور تبادلے کی بنیاد بھی خالصتاً پیشہ ورانہ اہلیت و صلاحیت پر ہونی چاہئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے وطن عزیز میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹھیک طرح سے کام کرنے لگیں تو کوئی وجہ نہیںکہ ہمارے ملک میں کوئی بھی دہشت گرد اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو سکے۔ یوں لوگوں کے آدھے مسائل توحل ہو جائیں گے ۔ آج ہمارا ملک اس دہشت گردی کے باعث دنیا کے پرامن ممالک کی فہرست میں شامل نہیںرہا۔ بیرونی ممالک سے لوگ ہمارے ہاں آتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں ۔اس طرف حکومت کو توجہ دینی چاہئے تاکہ دہشت گردی کا وطن عزیز سے مکمل خاتمہ ہو سکے اور ملک پھر سے ترقی اور خوشحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہو سکے۔ اسی دہشت گردی کی وجہ سے کوئی ملک ہمارے ہاں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا۔ اس دہشت گردی اور لاقانونیت کے مسئلے پر حکومت کوسنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں