مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان ایک مجاہد، ایک سیاستدان

تحریر:۔ ہارون آزاد
آزادکشمیر کے سابق صدر وزیراعظم سابق چیئرمین کشمیر کمیٹی اور مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اکیانوے برس پر محیط بھرپور زندگی گزار کے10جولائی2015کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان اپنی سرشت میں ایک خدا دوست ، عبادت گزار ، درویش منتش بہادر شخصیت تھے۔جو وقت اور حالات دھاروں کے لیے رُخ پہننے کا حوصلہ رکھتے تھے جنہوں نے بلند کرداری، حق گوئی اور اصلوں پر ڈٹ جانے کی خوبی کے باعث صرف آزادکشمیر میں ہی نہیںبلکہ پاکستان کی سیاست میں اپنا نمایاںمقام پیدا کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کشمیریوں کی بین الاقوامی پہچان بن گے ۔ بھارت کے پرائیویٹ چینل زی ٹی وی کو ان کا انٹرویو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ اس انٹرویوں میں انہوں نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا مقدمہ جرات کے ساتھ لڑا تھا۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان 4 اپریل1924ء کو غازی آباد میں پیدا ہوئے ۔ پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے برٹش انڈین آرمی میں ملازمت اختیار کی۔ اس دوران اُنہوں نے صحرائے عرب اور خلیج کے مختلف علاقوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان واپس آئے تو خطے میں قیام پاکستان کی تحریک زوروں پر تھی۔ اس تحریک کے اثرات کشمیر کی شاہی ریاست پر بھی سیاسی طور پر مرتب ہو رہے تھے جو خود سردار عبدالقیوم خان کا وطن بھی تھا۔ کشمیریوں کی اجتماعی رائے یہ تھی کہ ڈوگرہ حکمرانوں کو مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی مشترکات کی بنیاد پر ریاست کا پاکستان سے الحاق کرنا چاہیے۔ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اس مطالبے کو ماننے میں تذبذب کا شکار تھے۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا مگر ڈوگرہ کا تذبذب بڑھتا جا رہا تھا اس طرح ڈوگرہ حکمرانوں پر پاکستان سے الحاق کیلئے دبائو ڈالنے کی خاطر نیلا بٹ کی چوٹی پر ایک جلسہ منعقد ہوا۔اس جلسے میں ایک بائیس سالہ مسلح نوجوان بہت فعال تھا۔ پرجوش نوجوان نہ صرف امن و ایمان کا ذمہ دار تھا۔بلکہ جلسے میں نعروں اور تقریر سے بجلی سے بھر دینے کے فن میں بھی طاق تھا۔ جلسے کے بعد جلوس کی شکل میںیہ کاررواں باغ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ راہ میں ا ہالکارواں کا تصادم ڈوگرہ پولیس سے ہو تا گیا۔ ڈوگرہ پولیس پسپا ہوتی چلی گئی اور دوبارہ ان علاقوں میں قدم نہ جما سکی۔ اس پوری تحریک میں سر گرم بائیس سالہ مسلح نوجوان کا نام محمد عبدالقیوم خان تھا جو بعد ازاں مجاہد اول کہلائے۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف اس جدوجہد سے نوجوان کا کردار شروع ہو کر پھیلتا ہی چلا گیا۔ سردار عبدالقیوم خان نے اپنا عسکری تجربہ اور مہارت جنگ آزاد ی کے لیے وقف کی اور معروف مغربی مصنف جوزف کا ربل کے مطابق سردار عبدالقیوم خان نے پہلی آزادکشمیر بٹالین کی کمانڈ سنبھالی۔ جوان دنوں 19AKبٹالین کہلاتی ہے۔ اس بٹالین نے جسے جوزف کاربل نے ”قیوم بٹالین” کہا ہے اوڑی اور پونچھ کے درمیان اہم علاقے میں اپنی خدمات انجام دیں۔ بعد میں جب اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بند ہوئی اور مجاہد اول نے سیاست کا رُخ کیا وہ عسکری مجاذ کی طرح یہاں بھی ایک بہادر جرنیل کی طرح چھائے رہے۔ مجاہد اول نے عملی سیاست کا آغاز اآل جموںوکشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے کیا اور تا دم آخر میں اسی جماعت کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ ہر مشکل گھڑی میں قائد کشمیر رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس مرحوم کے ساتھ کھڑے رہے 1952 ء میں وہ آزادکشمیر حکومت میں وزیر کے منصب پر فائز رہے۔ کشمیر لبریشن موومنٹ کے دوران تنظیم رابطہ عالم اسلامی کے رکن منتخب ہوئے جس سے ان کا حلقہ اثر اور احباب عالم عرب تک وسیع ہو گیا۔ سردار عبدالقیوم خان نے1977ء کے بحران میں پاکستان قومی اتحاد اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان سیاسی مفاہمت کی بھرپور کوشش کی مگر وہ ہونی کو نہ روک سکے اور ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ مارشل لاء دور میں مجاہد اول ایک بار پھر قید کر دیئے گئے مگر کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار ہو گئے اور جنرل ضیاء الحق نے آزادکشمیر کے مختلف مقامات پر بھرے جلسوں میں انہیں اپنا سیاسی مرشد قرار دیا۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان انگریزی اور عربی سمیت کئی زبانوں پر گہرا عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے درجنوں کتاب تحریر کیں جن میں کئی جلدوں پر مشتمل کتاب فتنہ افکار ست، کشمیر بنے گا پاکستان، مذاکرات سے مارشل لاء تک اور مقدمہ کشمیر وغیرہ اہم ہیں۔ سردار عبدالقیوم خان ایک قادر الکلام شخص تھے اور مخاطب کو اپنی بات کا قائل کرنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔ غیر ملکی سفارت کار ان کی باتوں سے متاثر ہو ئے بغیر نہ رہتے۔ انہوں نے آزادکشمیر کے طول و عرض میں تعلیمی ادارون کے جال پھلائے۔ سردار عبدالقیوم خان تصوف سے گہرا لگائو رکھتے تھے اپنے حلقہ اثر میں انہوں ایک روحانی پیشواء کی بنارہا جہاں ہمہ وقت لوگوں کی آمدورفت لگی رہتی۔ داد دیناچاہیے کہ علالت کے درمیان مجاہد اول کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان نے کسی ملاقاتی کو نہیں ملنے اور دیدار کرنے سے محروم نہ رکھا۔ روزانہ دور دراز سے آئے ہوئے سینکڑوں لوگ انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ جناح ہسپتال میں ان کا دیدار کرتے رہے ۔ تحریک آزاد کشمیر کے ہیرو سپہ سالار مجاہدین،سابق صدر،سابق وزیراعظم،قائد حزب اختلاف،مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کا انتقال 10جولائی بروز جمعتہ المبارک 2015کو ہوا۔ان کے انتقال سے آزادکشمیر کی سیاست، تصورف ، عسکریت ، فہم و فراست کا ایک باب ختم ہوا۔ اللہ تعا
لیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔ ایسی ہی شخصیات کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ ۔
مت سہل ہمیں جانوپھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان اُبھرتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں